19 دسمبر2024ء)سعودی عرب کے مفلوک الحال صحرا نورد شہری کی زندگی ایک اونٹ نے بدل دی، 6 ہزار ریال میں خریدا گیا اونٹ کا بچہ 40 لاکھ ریال میں فروخت ہونے پر یاسر الدوسری نے نہ صرف اپنے قرضے ادا کر دیے بلکہ ایک مکان بھی خرید لیا۔عرب ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق صحرا میں زندگی گزارنے والے یاسر الدوسری نے بتایا کہ اس کی مالی حالت خراب تھی، ذاتی گھر تھا اور نہ کاروبار، آبا ئواجداد اونٹ پالا کرتے اور اس کے دودھ پر گزارا کرتے تھے۔
ایک دن حفرالباطن کی اونٹ منڈی سے ایک بروکر نے واٹس اپ پر اونٹ کیایک بچے کی تصویر بھیجی جو فروخت کے لئے آیا تھا، تصویر دیکھ کر میں نے اسے خریدنے کا فیصلہ کرلیا۔ اونٹ کے بچے کی قیمت چار ہزار تھی جبکہ دو ہزار کمیشن کے طور پر بروکر کو دینے کے بعد اونٹ کا بچہ مجھے 6 ہزار ریال میں پڑا ۔
اس کے دوماہ بعد اونٹوں کا ایک بیوپاری آیا جس نے مجھ سے اونٹ کا وہی بچہ خریدنے کی خواہش ظاہر کی اور 10 ہزار ریال میں سودا ہوگیالیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا ، میں چار ہزار کے منافع پر کوئی زیادہ خوش نہیں تھا۔
اونٹ فروخت کرنے کے دوسرے دن وہی شخص جس نے 10 ہزار میں خریدا تھا آیا اور اس نے کہا کہ اچانک رقم کی ضرورت پڑ گئی ہے اس لئے میں سودا منسوخ کر کے اس کو رقم واپس کردوں ، میں نے اونٹ واپس لے کر اسے دس ہزارریال واپس کر دیے۔اونٹ کا یہ بچہ بڑا ہونے پر میں اسے الصیاھد میں فیسٹول میں فروخت کے لئے لے گیا جہاں اس کی قیمت 5 لاکھ ریال لگی مگرمیں نے فروخت نہیں کیا، اتنی قیمت لگنے پر مجھے احساس ہوا کہ اس اونٹ میں ضرور کوئی خاص بات ہے،یہ سوچ کرمیں نے اس کی نسل معلوم کرنے کے لیے ڈی این اے کے لیے خون کا نمونہ دیا اور کہا کہ اسے اونٹوں کی حاکم بن قریع کی نسل سے میچ کریں ، ڈی این اے ٹیسٹ کا نتیجہ آنے پر میرا اندازہ درست ثابت ہوا ۔
مزید یہ کہ اب میرے پاس اس کی نسل کا سرٹیفیکیٹ بھی موجود تھا ۔ اگلے سیزن میں الصیاھد فیسٹول لگا تو اپنے اونٹ کو دوبارہ وہاں لے گیا جہاں ایک تاجر نیاس کی قیمت 10 لاکھ ریال لگائی مگرمیں نے دینے سے انکار کردیا،ایک اور تاجر نے اس کی قیمت 20 لاکھ ریال لگائی لیکن پھر ایک اور شخص نے 40 لاکھ ریال کی پیش کش کی جس پر میں نے وہ اونٹ اسے فروخت کردیا۔