لاہور ہائیکورٹ نے ماحولیاتی آلودگی اور اسموگ کے خاتمے کے لیے پنجاب حکومت کے منصوبے کو سراہتے ہوئے متعدد اہم احکامات جاری کیے ہیں۔
عدالت نے موٹر سائیکلوں کو پیٹرول سے بیٹری پاور پر منتقل کرنے کا فیصلہ سنایا ہے اور دیگر اقدامات کے ذریعے ماحولیاتی بہتری کی ہدایات دی ہیں۔
موٹر سائیکلوں کی بیٹری پاور پر منتقلی:
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے ایک تحریری فیصلے میں پنجاب حکومت کو ہدایت دی ہے کہ شہر میں استعمال ہونے والی موٹر سائیکلوں کو بتدریج پیٹرول سے بیٹری پاور پر منتقل کیا جائے۔
یہ اقدام اسموگ کی شدت کو کم کرنے اور ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کے لیے ناگزیر قرار دیا گیا ہے۔
صنعتی یونٹس کی منتقلی:
عدالت نے یہ بھی حکم دیا کہ لاہور اور اس کے گردونواح میں موجود صنعتی یونٹس کو شہری علاقوں سے باہر منتقل کرنے کے عمل کو تیز کیا جائے۔
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ حکومت نے اس منصوبے پر کام شروع کردیا ہے اور بڑی شاہراہوں جیسے جی ٹی روڈ، ملتان روڈ، اور فیروزپور روڈ کے قریب واقع صنعتوں کو انڈسٹریل زونز میں منتقل کیا جائے گا۔
الیکٹرک بسوں کا نفاذ:
پنجاب حکومت نے عدالت کو آگاہ کیا کہ لاہور میں الیکٹرک بسوں کے نفاذ کے لیے بجٹ مختص کردیا گیا ہے، اور مارچ 2025 ءتک الیکٹرک بسیں سڑکوں پر دوڑنا شروع ہو جائیں گی۔
ان اقدامات سے ناصرف آلودگی میں کمی ہوگی بلکہ شہریوں کو بہتر سفری سہولیات بھی فراہم کی جائیں گی۔
شجرکاری مہم اور درختوں کا اضافہ:
عدالت نے اپنے فیصلے میں پنجاب حکومت کی شجرکاری مہم کو بھی سراہا۔ دستیاب زمین پر زیادہ سے زیادہ درخت لگانے کے لیے مقامات کی نشاندہی مکمل کر لی گئی ہے۔
پنجاب کے مختلف اضلاع کے گردونواح میں درختوں کا ایک سبز دائرہ بنانے کے منصوبے کو بھی جلد عمل میں لایا جائے گا۔
گاڑیوں کی صحت کا معائنہ:
فیصلے میں گاڑیوں کے انجن کی حالت اور کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے معائنے کے مراکز قائم کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔
یہ مراکز گاڑیوں کے انجن کا معائنہ کرکے ان کی حالت کی تصدیق کریں گے اور معیاری ایندھن کے استعمال کو یقینی بنانے کے لیے یوروفیول کی دستیابی پر بھی زور دیا گیا ہے۔
لاہور گرین ریسٹوریشن پلان:
عدالت نے پنجاب حکومت کی جانب سے پیش کیے گئے “لاہور گرین ریسٹوریشن پلان” کی تعریف کی۔
اس منصوبے کے تحت نہ صرف لاہور بلکہ دیگر علاقوں میں ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے کے لیے شجرکاری اور ماحولیاتی تحفظ کے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
فوری، وسط اور طویل المدتی منصوبے:
ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو ماحولیاتی مسائل کے حل کے لیے فوری، درمیانی اور طویل مدتی منصوبے پیش کیے۔
ان منصوبوں میں زیر زمین پانی کی دستیابی، کاشتکاری کے لیے آبی وسائل کی بہتری، اور سیلاب سے بچاؤ کے لیے سالانہ ترقیاتی اسکیمیں شامل ہیں۔
ماحولیاتی بہتری کے اثرات:
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اگر حکومت سنجیدگی سے ان منصوبوں پر عمل درآمد کرے تو اس کے دور رس مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔ لاہور میں آلودگی کے مسائل پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ شہریوں کو ایک بہتر اور صحت مند ماحول فراہم کیا جا سکے گا۔
اگلی سماعت:
ماحولیاتی تحفظ اور اسموگ کے خاتمے کے لیے ان اقدامات پر عمل درآمد کا جائزہ لینے کے لیے کیس کی آئندہ سماعت 20 نومبر کو مقرر کی گئی ہے۔
عدالت نے امید ظاہر کی کہ ان منصوبوں پر تسلسل کے ساتھ کام جاری رہے گا۔
یہ اقدامات لاہور کو ماحولیاتی آلودگی سے پاک کرنے کے لیے اہم ہیں اور حکومت کی سنجیدگی کو ظاہر کرتے ہیں۔ لاہور ہائیکورٹ کے احکامات ماحولیاتی تحفظ کی جانب ایک اہم قدم ہیں جو آنے والے وقت میں پورے پنجاب کے لیے مثال بن سکتے ہیں