پاکستان کرکٹ ٹیم ایک خوفناک اور ابتر فارم میں ہے کیونکہ وہ پچھلے ایک سال کے دوران ہر فارمیٹ میں کارکردگی دکھانے میں مسلسل ناکام رہی ہے۔
مین ان گرین، گزشتہ سال ون ڈے ورلڈ کپ میں افغانستان سے ہارنے کے بعد، آئرلینڈ سے ٹی 20 میچ ہاری اور اس کے بعد ٹی 20 ورلڈکپ میں امریکا کی ٹیم سے شکست کے باعث ٹورنامنٹ سے باہر ہوگئی تھی۔
اس سب کے بعد تاریخ میں پہلی مرتبہ بنگلا دیش نے پاکستان کو ٹیسٹ میچ میں شکست دی، اور وہ بھی پاکستان کے ہوم گراؤنڈ پر۔ گرین شرٹس تینوں فارمیٹس میں مکمل طور پر ناکام نظر آرہے ہیں کیونکہ بنگلا دیش نے انہیں راولپنڈی میں بری طرح 10 وکٹوں سے شکست دی۔
یہ پاکستان کے لیے پہلے ہی ایک شرمناک نتیجہ تھا، لیکن حالات خراب سے بدتر ہوتے چلے گئے کیونکہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے عالمی ٹیسٹ چیمپئن شپ میں سلو اوور ریٹ کی وجہ سے مزید 6 پوائنٹس کی کٹوتی کی تھی۔ پاکستان کی جانب سے پہلے ٹیسٹ میں چار تیز گیند بازوں کو میدان میں اتارنے کے بعد ایسا ہونے کی توقع کی جا رہی تھی، اس فیصلے نے ٹیسٹ کے آغاز سے قبل بہت سے شائقین کو حیران کر دیا تھا۔
سیریز کے آغاز سے پہلے، پاکستان کے لیے باوقار ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کے فائنل کے لیے کوالیفائی کرنا ایک مشکل کام نہ تھا کیونکہ اسے سائیکل میں اپنے بقیہ 9 ٹیسٹ میں سے 7 جیتنا تھے۔ سیریز میں پاکستان کے لیے 2-0 سے جیت ضروری تھی کیونکہ اسے انگلینڈ کے خلاف تین ٹیسٹ میں سے مزید پانچ اور ویسٹ انڈیز اور جنوبی افریقہ کے خلاف دو دو جیتنا ہوں گی، جو پہلے ہی ایک مشکل چیز ہے۔
مین ان گرین کو اب ڈبلیو ٹی سی کے فائنل کے لیے کوالیفائی کرنے کے لیے اپنے باقی آٹھ ٹیسٹ میچوں میں سے ہر ایک کو جیتنا لازمی ہوگا، اس لیے یہ کہنا محفوظ ہے کہ ٹیم کو اگلے ڈبلیو ٹی سی سائیکل کے لیے تیاری شروع کر دینی چاہیے اور ان بقیہ آٹھ ٹیسٹوں کو فائنل کے لیے منصوبہ بندی کے لیے لینا چاہیے۔ اگلا جہاں تک شائقین کا تعلق ہے، اگلے سائیکل کے لیے بھی زیادہ امیدیں نہ رکھیں