عمران خان کے مطابق، ٹرمپ کے دور میں دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری آئی اور کئی امور پر باہمی تعاون ہوا۔ خاص طور پر کورونا وبا کے دوران ٹیسٹنگ مشین کی فراہمی اور کشمیر کے مسئلے پر امریکی صدر کا ردعمل ان اہم مواقع میں شامل تھے۔
تحریک انصاف کا ہدف: جمہوریت کی بحالی
عمران خان کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی کا احتجاج کسی ادارے کے خلاف نہیں بلکہ جمہوریت کی بحالی، آئین کی پاسداری، اور عدلیہ کی آزادی کے حق میں ہے۔ صوابی میں ہونے والے جلسے میں پارٹی مستقبل کے لائحہ عمل کا اعلان کرے گی، جس میں پارٹی رہنماؤں کی جانب سے عوامی مسائل پر مؤقف پیش کیا جائے گا۔
فوج کا کردار: قومی اثاثہ
عمران خان نے کہا کہ فوج کسی مخصوص جماعت یا فرد کی نہیں بلکہ پورے پاکستان کی ہے۔ ان کے مطابق، فوج کو بدنام کرنا کسی کے حق میں نہیں ہے اور پاکستان کی سیکیورٹی اور سالمیت کے لیے فوج کی حیثیت اہم ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی ایک پارٹی کے اقتدار کو تحفظ دینے کے لیے فوج کو غلط طریقے سے بدنام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
مشرقی پاکستان کا واقعہ: تاریخ سے سبق
عمران خان نے مشرقی پاکستان کے واقعات کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ 20 مارچ 1971 ءکو وہ خود ڈھاکا میں موجود تھے، جہاں عوام اپنے حقوق کا مطالبہ کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ جب حقوق کے لیے آواز اٹھانے والوں پر جبر کیا جاتا ہے تو نتائج بہت سنگین ہوتے ہیں۔ عمران خان نے موجودہ حالات کو اس تاریخ سے جوڑتے ہوئے کہا کہ عوام اور فوج کو ایک دوسرے کے مقابل لانے کی کوشش سے پاکستان کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں جبری گمشدگیوں کا مسئلہ:
عمران خان نے بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں جبری گمشدگیوں پر بھی بات کی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ سابق آرمی چیف جنرل باجوہ نے عدالتوں کے فیصلوں کو عذر بناتے ہوئے ان گمشدگیوں کو جائز قرار دیا تھا، جس سے فوج کے خلاف عوامی نفرت میں اضافہ ہوا۔ عمران خان کے مطابق، وزیراعلیٰ بلوچستان نے بھی ان اقدامات کی طرف نشاندہی کی تھی کہ اس سے عوام اور فوج کے درمیان دوریاں بڑھ رہی ہیں۔
پی ٹی آئی کارکنان اور رہنماؤں کے خلاف کریک ڈاؤن:
عمران خان نے تحریک انصاف کے رہنماؤں اور کارکنان کے خلاف ہونے والے مبینہ جبر اور فسطائیت پر روشنی ڈالی۔ ان کا کہنا تھا کہ پارٹی رہنما شہباز گل، اعظم سواتی، اور دیگر کو اغوا کرکے غیر انسانی سلوک کا نشانہ بنایا گیا جسے پورے پاکستان نے دیکھا۔ انہوں نے وکلاء برادری سے اپیل کی کہ وہ ماضی کی طرح موجودہ حالات میں بھی آواز بلند کریں۔
وکلاء برادری سے اپیل:
عمران خان نے وکلاء برادری کو یاد دلایا کہ ماضی میں جنرل مشرف کے خلاف وکلاء تحریک ایک اہم مرحلہ تھی، اور آج کے حالات اس سے بھی بدتر ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ کی آزادی پر حملے، تحریک انصاف کے رہنماؤں کے خلاف ظلم و جبر، اور گھروں پر چھاپوں جیسے واقعات وکلاء برادری کی توجہ چاہتے ہیں۔
پارٹی کارکنان کے لیے ہدایت:
عمران خان نے اپنی پارٹی کے تمام ارکان اور عہدیداروں کو پیغام دیا کہ وہ اس احتجاجی تحریک میں بھرپور شرکت کریں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ جو کارکنان اس تحریک میں شامل نہیں ہوں گے، انہیں اگلے انتخابات میں پارٹی ٹکٹ نہیں دیا جائے گا۔ عمران خان نے کہا کہ ہر رکن کو آئینی ترامیم اور جمہوریت کی بحالی کے لیے کھڑا ہونا ہوگا۔
بیرونی امداد پر انحصار کے بجائے قوم کی طاقت:
عمران خان نے کہا کہ وہ اپنی رہائی کے لیے نہ تو کسی ڈیل کی کوشش کریں گے اور نہ ہی بیرونی امداد پر انحصار کریں گے۔ انہوں نے زور دیا کہ 2018 ء میں انہیں عوام نے ووٹ دیا اور 2024 ءمیں بھی، تمام مشکلات کے باوجود، عوام کی حمایت حاصل رہی۔ عمران خان کے مطابق، پاکستان کے مسائل کے حل کے لیے قوم کو اپنی طاقت پر بھروسہ کرنا چاہیے۔
بائیڈن انتظامیہ پر تنقید:
عمران خان نے سابق آرمی چیف جنرل باجوہ پر الزام لگایا کہ انہوں نے حسین حقانی کے ذریعے بائیڈن انتظامیہ کے کان بھرے اور ان کے خلاف لابنگ کی۔ عمران خان کے مطابق، بائیڈن انتظامیہ نے پاکستان میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر خاموشی اختیار کی، جس کی وجہ سے ملک میں مزید مسائل نے جنم لیا۔
عمران خان نے امید ظاہر کی کہ امریکی صدر ٹرمپ کے دوبارہ عہدہ سنبھالنے سے حالات میں بہتری آئے گی۔
امریکی تعاون کی امید:
عمران خان نے مزید کہا کہ صدر ٹرمپ کے ساتھ ان کے تعلقات ہمیشہ اچھے رہے ہیں۔ بطور وزیراعظم وائٹ ہاؤس کے دورے پر ان کی عزت افزائی اور کورونا کے دوران ٹیسٹنگ مشین کی فراہمی جیسے واقعات ان تعلقات کی مضبوطی کا مظہر ہیں۔ عمران خان نے اس امید کا اظہار کیا کہ امریکا کے ساتھ مضبوط تعلقات سے ملک میں استحکام اور عوامی مسائل کے حل میں مدد ملے گی